سامراجی جنگ،ترقی کا راستہ اور لیفٹ | Shahzad Arshad

June 24, 2014 § 3 Comments

شمالی وزیرستان میں آپریشن کا باقاعدہ اعلان15جون کو کیا گیا ہے ۔ میڈیا عوام میں جنگی جنون پیدا کررہا ہے، حکمران طبقہ اس جنگ میں متحدہ ہوگیا۔یوں اس آپریشن کے نتیجے میں جنم لینے والے المیہ کو میڈیا پیش نہیں کررہا اور اس پر صرف طالبان اور غیر ملکی دہشت گردوں کے مرنے کی خبریںآرہی ہیں۔کراچی ائیرپورٹ پر حملہ کے بعدسے ایسی فضاء بن گی تھی،جس میں ریاست کی رٹ کو تسلیم نہ کرنے اور مذاکرات کی ناکامی کے اعلان کے بعد فوجی آپریشن شروع کردیا گیا۔

ہماری جنگ
حکمران طبقہ اسے ہماری جنگ بنا کر پیش کررہا ہے ہے،ایسا لگ رہا ہے شمالی وزیرستان کی بجائے کراچی،اسلام آباد اور لاہور پر حملہ ہوگیا ہے،میڈیا خوف کی فضاء بناکر آپریشن کی حمایت پیداکررہا ہے،حکمران طبقہ اس جنگ میں اکھٹا ہے،عمران خان اور جماعت اسلامی کی سامراج اور جنگ مخالفت بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔لیکن اس سب کے باوجود سماجی صورتحال نئے تضادات کو جنم دئے رہی ہے قادری کی آمد سے حکمرانوں کے خوف کی وجہ سماجی عدم استحکام ہے،جو کسی بھی وقت ایک انقلابی ابھار کو جنم دئے سکتا ہے اور یہی تضادات فوجی مداخلت کو بھی جنم دے سکتا ہے۔

ترقی اور آپریشن
حکمران طبقہ اس آپریشن کو ایک فیصلہ کن آپریشن بتارہا ہے کہا جارہا کہ اس آپریشن میں اچھے اور برے طالبان میں تمیز نہیں ہوگئی،وہ کہتے ہیں کہ جب تک امن نہیں ہوگا ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری نہیں آگئی اور یوں ترقی ممکن نہیں ہوگی۔لحاظ یہ آپریشن پاکستان کی سلامتی اور اس کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ریاست یہ بتا رہی ہے کہ فوجی آپریشن سے ہی ترقی اور آزادیوں کا تحفظ ممکن ہے۔یعنی جب لاکھوں بے گھر ہوں اور سینکڑوں مارے جائیں۔تو پاکستان ترقی کرئے گا اور جمہوریت کا دفاع ممکن ہوگا۔بنگال میں فوجی آپریشن بھی مکتی باہنی کی وحشت اور انڈیا کی سازش کے خلاف کیا گیا تھا۔یہی سب بلوچستان اور سندھ میں جاری ہے اور ہر آپریشن میں عام سندھی،بلوچ اور پختون ہی مارجاتے ہیں۔

سامراج کی جنگ
حکمران طبقہ اس کو پاکستان کی جنگ قرار دے رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ سامراج کے مفادات اور قبضے کی جنگ ہے،جس میں ناکامی کی وجہ سے یہ اس کو پھیلا رہا ہے۔وہ جنگ جو پہلے افغانستان تک محدود تھی۔اب یہ قبائلی علاقوں میں لڑی جاری ہے اور اس کی تپش بڑے شہروں میں بھی محسوس ہورہی ہے۔حکمران طبقہ کے تمام ترپروپیگنڈے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ موجود آپریشن میں اہم کردار امریکی امداد کا ہے جس کی منظوری شمالی وزیرستان میں آپریشن سے وابستہ ہے۔ آپریشن کے دوران ڈروان حملے اس صورتحال کو مزیدواضح کررہے ہیں۔

تقسیم اور جنگیں
ایک طرف شمالی وزیرستان میں بمباری جاری ہے تو دوسری طرف سندھ،پنجاب اور بلوچستان میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کردی گئی۔جوریاستی جبرکے شکار ہیں ان کو ہرطرح سے ذلیل و خوار کرنے کا بندوبست کیا جارہا ہے۔چیکنگ ایک بہانہ ہے،ڈان اخبارکے مطابق پختون عوام جو فوجی آپریشن کی وجہ سے بے گھر ہورہے ہیں ،ان کی شہروں میں آمد کو پولیو کے خطرے سے جوڑا رہا ہے۔تاکہ متاثرین کی آمد روکی جاسکتے۔یہ نسل پرستانہ تعصب کو ہوا دیناہے تاکہ محنت کش عوام کو تقسیم کیاجاسکے۔

مارکسسٹ اور دہشت گردی
مارکسٹ کراچی ائیر پورٹ،اہل تشیع ،دیگر مذاہب سے تعلق والوں اور عام لوگوں پر خودکش حملوں کی مذمت کرتے ہیں اور اس کے خلاف ہیں۔لیکن ہم فوجی آپریشن کی حمایت نہیں کرتے جس نے دہشت گردی کو ختم کرنے کی بجائے اس کو مزید پھلایا ہے۔یوں بھی اس آپریشن کا مقصد طالبان کے جبر کی جگہ ریاست کے جبر کو مسلط کرنا ہے۔

سرمایہ داری کی ناکامی اور انتہا پسندی
ان حالات میں مارکسٹوں پر لازم ہے کہ وہ صبر کے ساتھ واضح کریں کہ انتہاپسندی کی وجہ وہ مادی حالات ہیں جن میں ریاست نے نیولبرل ازم کے تحت عوام سے اپنا ناطہ مکمل طور پر ختم کرلیا ہے اور وہ سرمایہ دارنہ مفادات کی مکمل ترجمان بن کر سامنے آئی ہے اور جس سے محنت کش عوام کی زندگی اذیت ناک ہوگئی ہے اورقبائلی علاقے جو مرکز سے دور ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ’’ترقی ‘‘سے محروم اورپچھلے30سالوں سے سامراجی جنگ کا شکار ہے جس میں نئی نسل نفرت میں پل کر جوان ہورہی ہے۔جب وہ خود پر جنگ مسلط ہوتا دیکھتے ہیں اور اس کی مخالفت نہیں ہوتی تو پھر ان کے پاس طالبان کی وحشت کا آپشن ہی ہوتا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ شہری محنت کش دہشت مخالف جنگ کے خلاف خاموشی ختم کرکے احتجاج منظم کریں۔

لبرل اور لیفٹ
لبرلز دہشت مخالف جنگ کے آغاز سے ہی اس کی حمایت کررہے ہیں۔اس کا ایک اظہار ہے این جی اوز کی طرف سے آیا،جنہوں نے اس فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کا یقین دلایا ،حیران کن بات یہ ہے کہ ہیومن راٹیس کمیشن آف پاکستان نے بھی آپریشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔حالانکہ یہ ادارے جنگ اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے ہیں۔
لیکن لیفٹ کی طرف سے آپریشن کی حمایت نہایت ہی شرمناک ہے۔ عوامی ورکرز پارٹی کی مرکزی قیادت کی طرف سے فوجی آپریشن کی حمایت حقیقت میں انکی اصلاح پسند سیاست کانتیجہ ہے جس میںیہ سرمایہ داری نظام اور اس کی ریاست کے خلاف جدوجہد کی بجائے اس نظام میں ہی حل دیکھتی ہے ۔ان کے لیے ترقی اور جمہوریت سرمایہ دارنہ نظام اور اس کی ریاست سے وابستہ ہے۔یوں سامراجی جنگ کے خلاف کے تضاد میں آنے والوں پر فوجی آپریشن کے حامی بن کر انوکھی ’’سامراج مخالفت‘‘ کرتے ہیں۔

جبکہ CMKPاورلال بینڈکے نزدیک شمالی وزیرستان میں آپریشن ’’آزادی کا آپریشن ‘‘ہے۔ان کا مواقف ہے کہ ریاست نے اپنے تجربے سے سیکھا ہے اور اب وہ ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے لحاظ ہمیں اس کی حمایت کرنا چاہیے۔یہ حکمران طبقہ کی طرف سے نسل پرستی کے فروغ کو پنجاب میں آپریشن قرار دے رہے ہیں۔

جنگ اور مارکسی مخالفت
پہلی جنگ عظیم میں بالشویکوں نے روسی ریاست کی جانب سے جنگ کی مخالفت کی تو انہیں روس میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔لیکن آخرکار انہوں نے حکمران طبقہ کی جنگ کو حکمرانوں کے خلاف جنگ میں بدل دیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس جنگ مخالف روایات کو پاکستا ن میں منظم کریں۔

ہمیں سوشلزم کو سرمایہ دارنہ نظام کے متبادل پیش کرنا ہوگا،اس آپریشن کے خلاف سیاسی جدوجہد کو تعمیر کرنا ہوگی اور یوں محنت کش طبقہ اور دیہی غریبوں کی قیادت کو سامنے لاکر ہی ہم حقیقی معنوں میں سوشلزم کو متبادل بنا سکتے ہیں۔اس وقت سب سے اہم سامراج اورریاست کی مخالفت اور آپریشن کی بربریت کو سامنے لانا اور یہ واضح کرنا کہ کیسے ہر آپریشن کی طرح اس میں بھی طالبان کے نام پر عام پختون نشانہ بن رہے ہیں۔یوں ہی ہم سرمایہ داری کی بربریت اور طالبان کی وحشت کا متبادل پیش کرسکتے ہیں۔

جنگ کے خلاف بڑی عوامی تحریک تعمیر کرکے ہی طالبان کی رجعتی قیادت کو کنارے سے لگایا جاسکتا ہے۔یوں ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے کہ حقیقی طالبان مخالف جدوجہد منظم کی جاسکے لیکن اس جدوجہد کو اپنی بنیاد میں جنگ اور سرمایہ داری مخالف ہونا ہوگا

Questions worth asking | Umair Javed

June 23, 2014 § Leave a comment

Dawn | Jun 23. 2014

It must be pointed out, however, that any situation where nearly everyone is ready to cheerlead a military assault — especially one resulting in civilian casualties and mass displacement — is exceptionally unreasonable. What those amongst us actively celebrating this operation need to contemplate is that baying for blood and shrugging off the loss of innocent lives as collateral damage is a primal, borderline fascistic response. All it does is floor the already low level of moral and intellectual debate in the country, and endorse the already dehumanised view of Pakhtuns and other communities living in Fata and its adjoining areas. Full article

On state terrorism | Aasim Sajjad Akhtar

June 23, 2014 § Leave a comment

Dawn | Jun 20. 2014 :

Meanwhile jets pound North Waziristan, the security apparatus continues to target nationalists in Balochistan, and polarisation in Sindh shows no sign of abating. So while the ruling clique is fighting within itself for the right to rule Punjab, the rest of the country is marginalised as only peripheral regions can be. Full article

Where Am I?

You are currently browsing entries tagged with analysis at .